Disqus Shortname

Comments System

وہ کون تھا

16 جولائی، 622ء بمطابق یکم محرّم پہلی ہجری کو اس دنیا میں اللہ کے حکم سے ایک روح کا نزول ہوا، ایک نیا جسم تخلیق ہوا اور اس میں زندگی پھونکی گئی۔ اس کی زندگی کی ابتداء بہت کمزور حالت میں ہوئی مگر آہستہ آہستہ اس نے پروان چڑھنا شروع کیا۔ دنیا میں اس کے نام کا سورج طلوع ہوا اور ساری دنیا نے اس کو اس کے نام سے پہچانا۔ دنیا کی اعلیٰ ترین ہستی نے اس کو پروان چڑھانے کا بیڑہ اٹھایا، بہت سی مشہور و معروف شخصیات نے اس کی پرورش کی اور بہت سے علمائے کرام نے اس کی تربیّت میں کوئی کثر اٹھا نہ رکھی۔ اس کو دنیا کے اعلیٰ ترین علوم سے لیس کیا گیا یہاں تک کے دنیا اس پر رشک کرنے لگی۔ اس کو دنیا کے بہتریں فنِّ تعمیر سکھائے گئے یہاں تک کے دنیا اس کو اپنا استاد ماننے لگی۔ اس کو طب، فلکیات، کیمیات، منطق کا ماہر بنایا گیا یہاں تک کہ اس سے تعلیم حاصل کرنا دوسرے ملکوں کے شہزادے اور شہزادیوں کا خواب بن گیا۔ اس کا اثر ساری دنیا میں پھیل گیا اور اس نے ساری دنیا کو اپنے نور سے منوّر کر دیا۔ اس کی وجہ سے ہر مذہب اور حلقہ فکر کے لوگ امن اور چین کی زندگی گزارنے لگے۔ دنیا سے تمام آفتوں اور مصیبتوں کا خاتمہ ہو گیا۔

اس کی حکمت و بصیرت نے ساری دنیا کو فتح کر لیا تھا۔ اس کا یہ مقام تھا کہ وہ دنیا کو بتاتا تھا کہ خیر کیا ہے اور شر کیاہے۔ وہ دنیا کو سکھاتا تھا کہ اقتصادیات اور معاشریات کو کیسے چلایا جاتا ہے۔ اس نے دنیا کو ایک ایسا نظام نافذ کر کے دکھایا جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اپنی قوم کو ترقی کی ان منزلوں پر پہنچایا جس کا ادراک پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ اس کی کاوشوں سے اس کی قوم نے ترقی کی ان بلندیوں کو چھوا جس کو پہلے کسی نے نہیں چھوا تھا۔ اس کا سایہ اس کی قوم کے لیئے باعثِ رحمت تھا۔ وہ اپنی قوم کے لیئے ایک ڈھال تھا جو ان کو دنیا کی مصیبتوں اور آفات سے محفوظ رکھتی تھی۔ اس نے اپنی عوام کو ہر اس دشمن سے محفوظ رکھا جس سے ان کا سامنا ہوا یہاں تک کہ دشمن بھی اس کے افکار کے آگے ڈھیر ہو گئے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی دشمن کی یہ جرات نہ تھی کہ وہ اس کی قوم یا اس کے کسی فرد کی جان، مال یا عزت پر ہاتھ ڈالنے کا خواب دیکھتا۔ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ وہ ساری دنیا پر حاوی تھا یہاں تک کہ سب دوست اور دشمن اسی سے مدد طلب کرتے تھے۔ اس کے بغیر لوگ زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس نے اندلس کو فتح کیا، صلیبوں کو شکست دی، تاتاریوں کو مغلوب کیا اور قسطنطنیہ (استنبول) پر اپنا جھنڈا گاڑھا۔ وہ بادلوں کو مخاطب کر کے کہتا تھا: تم جہاں بھی جا کر اپنی بارش برساو، لیکن جہاں بھی تمہارا پانی گرے گا وہ میرا ہی علاقہ ہو گا۔ اس سے فرانس جیسی طاقت نے اس وقت مدد طلب کی جب ان کے بادشاہ کوقیدی بنا لیا گیا تھا اور اس وقت فرانس کی نظر میں اس سے زیادہ طاقتور اور کوئی نہ تھا جو کہ ان کے بادشاہ کو چھڑا سکتا۔ اس کا سارے عالم میں اتنا رعب اور دبدبا تھا کہ اس کے دور میں اس وقت کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ 642 ہزار ڈالر مالیت کا سونا اس کو سالانہ ٹیکس دیا کرتی تھی۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اس کی زبان میں معاہدے کیا کرتی تھیں۔ اس کی قوم کی تکنیکی مہارت اس اعلیٰ درجے پر پہنچ گئی کہ تاریکی میں ڈوبے یورپ کے لوگ اس کی ایجادات کو جنوں بھوتوں کی کارستانیاں سمجھتے تھے۔ اس کی غیرت کا یہ عالم تھا کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی مظلوم اس کو پکارتا، تو وہ اپنا لشکر لے کر وہاں پہنچ جاتا اس سے پہلے کہ اس کی آمد کی خبر وہاں پہنچے۔

یہ اس ہی کے تعلیمی نظام کی طاقت تھی کہ ہر دل ایمان سے لبریز اور ہر ذہن فتنہ و فساد سے پاک تھا۔ یہ اس ہی کا معاشی نظام تھا کہ سڑکوں پر زکوٰة کے ڈھیر پڑے رہتے تھے اور کوئی لینے والا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے معاشرتی نظام میں،قتل و غارت تو دور کی بات، کوئی شخص کسی سے زیادتی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے نظامِ حکومت میں مفادات کی بنیاد پر غبن اور دھاندلی کا تصوّر بھی نہیں تھا۔ اس کے نظامِ عدل میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے۔ اس کی خارجہ پالیسی ایسی تھی کہ ہر ملک اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات رکھنے میں ہی خیر جانتا تھا۔ اس کے تحقیقاتی اداروں کا یہ مقام تھا کہ اس کے سائنس دان ایسی ایسی ایجادات کرتے تھے جن کا اس وقت یورپ اور امریکہ اپنی کہانیوں میں ذکر کیا کرتے تھے۔ اس کا فوجی نظام ایسا تھا کہ اس کی فوج دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت تھی اور ہر سپاہی کے دل سے شہادت ہی کی صدا آتی تھی۔ اس کی فوجوں کی آمد کی خبر سن کر دشمن ملک کا رواں رواں کانپ اٹھتا تھا۔ اس کے دین کی اہانت کا سوچنے سے قبل کفّار کا دل خوف سے معمور ہو جاتا تھا اور اس پر حملے کی تیّاری کرنے والے سوتے جاگتے بھیانک خواب دیکھتے تھے اور پسینے میں شرابور رہتے تھے۔ اس کی عداوت کا سوچ کر دنیا کی قومیں کپکپاتی تھیں۔

پھر ایک وقت آیا کہ اس کے دشمنوں نے کچھ غدّاروں کو خرید کر اس کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کو کمزور اور کمزور تر کرنے کی سازشیں کی گئیں۔ اس کے جسم پر شب خون مارا گیا اور اس کو زخمی حالت میں تڑپنے کے لیئے چھوڑ دیا گیا لیکن وہ اپنے آخری وقت میں بھی اپنی حالت کو سنبھالے ہوئے تھا۔ اور پھر 3 مارچ 1924ء بمطابق 28 رجب 1342 ہجری کو اس نے دم توڑ دیا۔ اس کے جسم کا پاک لہو آج بھی سپین سے لیکر انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹ کر علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا اور ہر ایک ٹکڑے پر ایک جلّاد کو بٹھا دیا گیا جو کہ اس کے جسم کے ٹکروں پر پلتے ہیں اور اسی پر خنجر سے وار کرتے ہیں۔ اس کے جسم کے 58 ٹکرے جن کو آج دنیا پاکستان، ایراق، ایران، افغانستان، سعودی عرب، مصر، فلسطین، شام، لبنان اور نہ جانے کتنے مختلف ناموں سے جانتے ہیں۔ جی ہاں!یہ خلافت تھی!!!

مارچ کا مہینہ جاری ہے اورآنے والی 3 مارچ کی تاریخ ہمیں اسی دور کی یاد دلاتی ہے جب مسلمانوں کا خون کعبہ اور اس کے اطراف سے بھی مقدّس جانا جاتا تھا۔ یہ ہمیں اس دور کی یاد دلاتی ہے جب مسلمان قوم ایک جسم کی مانند تھی جس کے ایک حصّے کو تکلیف ہوتی تو پورا جسم درد سے تڑپ اٹھتا تھا۔ یہ ہمیں اس دور کی یاد دلاتی ہے جب مسلم امّت بہترین امّت تھی اس لیئے کہ وہ نیکی کا حکم دیتی اور منکر سے روکتی تھی۔ اللہ سبحان و تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت دوبارہ نبوّت ہی کے نقشِ قدم پر قائم ہو گی اور وہ دن دور نہیں جب مسلمان خوشیاں منائیں گے۔ وہ خلافت، جس کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے دی:

((...ثم تکون خلافة علی منھاج النبوة))

”...پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی“

Post a Comment

0 Comments

Disqus Shortname

Comments system